ب
ھونگ مسجد ایک گاؤں بھونگ (تحصیل صادق آباد، ضلع رحیم یار خان, صوبہ پنجاب) میں واقع ہے
۔ یہ مسجد بہاولپور سے240 کلومیٹرز اور رحیم یارخان
سے تقریباً 55 کلومیٹر دور واقع ہے
صادق آباد کے علاقے میں قابل دید
مقامات میں سے ایک ہے
اس علاقہ میں گرمی قدرے زیادہ ہوتی ہے اس کی تعمیر 1932 میں شروع ہوئی اور 1982 میں ختم ہوئی اس مسجد نے تعمیرات کے شعبہ میں 1986 میں آغا خان ایوارڈ بھی جیتا۔ یہ مسجد بہاولپور سے240 کلومیٹرز اور رحیم یارخان سے تقریباً 55 کلومیٹر دور واقع ہے
اسے یہاں کے بہت بڑے سرمایہ کار مرحوم سردار رئیس غازی محمد نے اپنے سرمایہ سے اپنی نگرانی میں تقریباً 50 سال کے طویل عرصے میں تعمیر کروایا رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھرکے قریب 1932ءمیں بھونگ مسجد کی تعمیر کے لئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انہوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ البتہ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنہوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔ مسجد کی تعمیر کےلئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے، سونے
کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں
مسجد
کی تعمیر کے دوران ہی 1975ءمیں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی وفات کے
بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش
صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل
ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی
وجہ سے 1986ءمیں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 12 مئی
2004ءکو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ پنجاب
حکومت نے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اس مسجد کو ثقافتی ورثہ بھی قرار دیا
ہے۔ بھونگ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس
غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔
مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں
حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل فواروں سے
مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے جو سنگِ
مرمر اور سنگِ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے جو خواتین کی جمعہ
مسجد کہلاتی ہے۔ مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔
مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ
ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی
محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا‘ چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔
صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دلکش نقش و نگار‘
خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے
اس کے تعمیر میں 1000 مزدور اور 200 ماہر تعمیرات
شامل تھے
تعمیر کے بعد آج تک اس کی مرمت جاری ہے
یہاں کے رہنے والوں کا ماننا ہے کہ اگر اس کی مرمت جاری نہ رہے تو ارد کے علاقے میں
کسی نہ کسی کا کوئی نہ کوئی نقصان ہوتا رہتا ہے
مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی ۔کئی
حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ءمیں ایک نئے
مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ
تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور 20 فٹ
بلند ایک چبوترہ بنا کر اُس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد
کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہو نقطہ نظر ہیں کہ جب 2010 میں سیلاب آیا تھا تو آس پاس کا سارا علاقہ زیر آب آ گیا تھا حتیٰ کہ مسجد کی دیواروں کو بھی چھوتا
تھا مگر اس مسجد کو کچھ بھی نہیں ہوا۔
الامان والحفیظ
اپنا بہت سارا خیال رکھیں
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
بلوگ کے بارے میں
Comment
ضرور کیجئے گا
شکریہ
بہت اچھی تحریر ہے مگر اختتام مزیر اچھا ہو سکتا تھا. اس کو مزید بہتر کریں. باقی بہت ہی کمال ہے ❤❤
ReplyDeleteinshallah
DeleteMashallah
ReplyDeletejazak ALLAH
Delete