تاریخ
شاہد ہے کہ مغل بادشاہ جس راستے سے بھی گزرے اور جہاں جہاں ٹھہرے وہاں وہاں اپنے
نقش ثبت کرتے چلے گئے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگا
کہ عدل و انصاف کا معاملہ ہو یا جنگ و جدل کا، عشق و محبت ہو یا سیاست، سیر و سیاحت
ہو یا شکاریات، فن دستکاری ہو یا فن تعمیر، مغلوں نے ہر میدان میں اپنی مہارت و
کاریگری حسن نظر اور انفرادیت کا لوہا منوایا۔ فن تعمیر میں مغلوں نے کہیں اپنا
انداز اپنایا اور کہیں اس میں مقامی رنگ کی اس خوبصورتی سے آمیزش کی کہ اس دلکش
امتزاج سے تاج محل، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، شالا مار باغ، لال
قلعہ اور ہرن مینار جیسے کئی نادر شاہکار وجود میں
آئے۔ آج مغلوں کا دور حکومت قصہ پارینہ بن چکا ہے
لیکن
ان کی تعمیر کردہ تاریخی اور بے مثال عمارتوں سے حوادث زمانہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
اور وہ آج بھی ہر خاص و عام سے داد تحسین وصول کر رہی ہیں۔ خاص طور پر ہرن مینار
پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی یکتا مثال ہے۔ برطانوی دور حکومت میں انگریز سیاحوں
اور حکمرانوں نے ہرن مینار کی دل کھول کر تعریف کی اور اسے انسان اورر جانور دوستی
و پیار کا لازوال نمونہ قرار دیا۔ ہرن مینار، صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سابقہ
جہانگیر پورہ میں واقع ہے۔ تاریخی شہر شیخوپور کی بنیاد عظیم مغل شہنشاہ نورالدین
محمد جہانگیر نے رکھی۔ جہانگیر کی ماں شہزادہ سلیم کو عرف شیخو کہا کرتی تھی
اور جس کا انارکلی کے ساتھ محبت کا قصہ مشہور ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم
کی چکربازیوں کے چکر میں انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا اور بعد میں خود
شہزادہ سلیم ”نورالدین“ بن بیٹھا۔
ویسے بعض لوگ مختلف حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ
انارکلی بس ایک افسانہ ہے اور حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ بہرحال حقیقت تو ”حقیقت
کو معلوم ہے ہمیں سلیمی چکر بازیوں میں چکر کھانے کی ضرورت نہیں ۔ شہزادہ سلیم تو
وہ ہوتا ہے کہ جس کا اپنا ہی تیر جانے انجانے میں اپنے پالتو ہرن منسراج یا”ہنس
راج“ دونوں نام تاریخ میں ملتے ہیں کو جا لگے اور پھر پیارے ہرن کی قبر پر
بلندوبالا مینار تعمیر
کرائے ایک کہانی تو یہ تھی البتہہرن
مینار کا یہ علاقہ کبھی جنگلی گھاس اور گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا جہاں ہرنوں کے
غول چوکڑیاں بھرا کرتے تھے یہ مغل بادشاہ جہانگیر کی شکار گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ
جہانگیر بادشاہ کے پاس ایک ہنس راج نامی ہرن تھا۔ جو بادشاہ کو بہت پسند تھا وہ
ہرن مر گیا تو جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک مینار تعمیر کروایا جس کا نام ہرن مینار
پڑ گیا۔ ‘‘ 1606ء میں شہنشاہ جہانگیر نے اس شکار گاہ میں ایک ہرن پکڑا اور اسے شاہی
جانوروں کے ساتھ شامل کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہرن بہت معصوم اور خوبصورت تھا۔ جہانگیر
اسے پیار سے ہنسراج کہتا تھا۔ ہنس راج نے چند ہی ہفتوں میں جنگلی خصلتیں چھوڑ کر
پالتو جانوروں کی سی عادتیں اپنا لیں اور جہانگیر کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ 1607ء میں
ہنس راج کی بیماری کی وجہ سے مر گیا اس کی موت کا جہانگیر کو بہت دکھ ہوا اور وہ
اس کے غم میں کئی دن اداس رہا
اگر
آپ بھی ہرن کی موت پر زیادہ ہی افسردہ ہو رہے ہیں تو ہرن مینار کے ساتھ تقریباً271میٹر
لمبا اور 228میٹر چوڑا تالاب ہے۔ اس تالاب میں چلو بھر سے زیادہ پانی ہے، لہٰذا
ڈوبنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کے درمیان میں جو بارہ دری ہے، وہاں سے پانی میں
چھلانگ تو بالکل بھی نہیں لگانی۔ بس بارہ دری میں بیٹھیں اور اپنی اپنی انارکلی کی
یاد میں چین کی بنسری بجائیں۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے
وقفے وقفے سے ’شامل باجا‘ بجائیں۔ تمام باجے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، ورنہ وہ
آپ کا باجا بجا دیں گےالبتہ
کچھ بھی بجانے سے پہلے یہ جان لیں کہ بارہ دری ہرن مینار بننے کے 13سال بعد یعنی
1620ء میں مکمل ہوئی تھی۔ مینار، تالاب اور بارہ دری آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔
اان
کے اردگرد چھوٹا سا جنگل ہے۔اس میں تالاب تک پانی لانے کے راستوں کی کچھ باقیات آج
بھی موجود ہیں۔ مغل بادشاہوں میں سو نقص نکالیں اور اُن کی ایسی تعمیرات کے بارے میں
کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بجائے فلاں کام کرتے تو اچھا ہوتا۔ لیکن مغلوں اور خاص طور
پر جہانگیر کی حسِ جمالیات کو داد نہ دینا بھی زیادتی ہے۔ اور قبر کا پتھر بھی اس
کے حکم سے ہرن کی شکل کا بنوایا گیا۔ ہرن کی قبر پر ایک کتبہ عہد جہانگیری کے
مشہور خطاط ملا محمد مینا کشمیری نے کندہ کیا۔ یہ عمارت جو سرسبز و شاداب جنگل میں
واقع ہے چاروں طرف سے ایک تالاب میں گھری ہوئی ہے دراصل مغلیہ شہنشاہ نے شکار کھیلنے
کے لیے بنوائی تھی
۔ یہ تین منزلہ عمارت جو درمیان
میں واقع ہے اور جس تک پہنچنے کے لیے ایک راستہ بنایا گیا ہے شاہی آرام گاہ تھی جس
میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں آرام کیا کرتے تھے خاص طور پر چاندنی راتوں
میں یہاں کا نظارہ بڑا ہی دلکش ہوتا تھا۔ آرام گاہ کی بلندی نوے فٹ ہے اور اوپر تک
پہنچنے کے لیے تقریباً سو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔مینار کی شکل گول اور بلندی کی
جانب مخروطی ہے اس میں مناسب مقامات پر176 روزن بنائے گئے ہیں تاکہ تازہ ہوا اور
روشنی بخوبی اندر آ سکے زمین پر مینار کا قطر 33 فٹ جبکہ چوٹی پر 23 فٹ کے قریب ہے
مینار کے اندر داخل ہونے کا راستہ مشرق کی جانب ۔ اندر سے گھومتی بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں
اس کی چھت پر جا نکلتی ہیں۔ سیڑھیاں چونے کے پتھر سے تیار کی گئی. جب یہ خوبصورت مینار
مکمل ہوا تو اس وقت اس کی اونچائی 130 فٹ تھی کسی حادثے کے سبب اس کا سب سے اوپر
والا حصہ گر گیا اور اب یہ 110 فٹ اونچا ہے تالاب اور بارہ دری ارادت خان کے
ہاتھوں 1620ء میں مکمل ہوئی جسے شہنشاہ نے بہت پسند فرمایا۔ تالاب کا پانی بدلنے
کے لیے ایک 450 فٹ چوڑا نالہ بنایا گیا تھا مورخین کے مطابق 30 کلو میٹر دور واقع
دریائے راوی سے پانی اس نالے کے ذریعے تالاب تک لایا جاتا تھا لیکن اب اس نظام کے
آثار معدوم ہو چکے ہیں۔ مینار کی تعمیر کے 13 سال بعد مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے حکم
سے 1638ء میں تالاب اور مینار میں بعض اہم تبدیلیاں کی گئیں جس پر اس وقت 80,000
روپے کے قریب لاگت آئی تھی۔
ششاہجہان
نے ہرن مینار کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے اور شیخوپورہ میں ایک قلعہ بھی بنوایا۔
ہرن مینار کے جنوبی جانب 1958-59ء میں ضلع کونسل کے تعاون سے سیاحوں کے لیے ریسٹ
ہائوس تعمیر کیا گیا جو 1962ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
ہرن مینار مغلیہ طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ سیر و تفریح
اور سیاحت کے شائقین کے لیے مکمل تفریح گاہ ہے۔ ہرن مینار ایک عظیم یاد گار اور
مغلیہ فن تعمیر کا نادر شاہکار ہے
ہرن
مینار مغلیہ طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ سیر و تفریح اور سیاحت کے
شائقین کے لیے مکمل تفریح گاہ ہے۔ ہرن مینار ایک عظیم یاد گار اور مغلیہ فن تعمیر
کا نادر شاہکار ہے
کو پنور الدین جہانگیر کی لازوال محبت کا بھی ثبوت
ہے
الامان والحفیظ
اپنا بہت سارا خیال رکھیں
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
بلوگ کے بارے میں Comment ضرور کیجئے گا
شکریہ
فی امان اللہ
Good affert bro. Very interesting information 👍👍👍
ReplyDeleteTysm for your affection
DeleteLove u
ReplyDeleteAwesome yr v good effort
tysm dear for your affection
DeleteGood job keep it up
ReplyDeletethanks a lot inshALLAH
ReplyDeleteKeep Going Hassnain loving it.
ReplyDeleteISNHALLAH DEAR THANKS NEED YOUR SUPPORT
DeleteIf you're attempting to burn fat then you have to get on this brand new personalized keto diet.
ReplyDeleteTo produce this keto diet, certified nutritionists, personal trainers, and top chefs have united to develop keto meal plans that are useful, convenient, cost-efficient, and delightful.
Since their grand opening in early 2019, 1000's of people have already remodeled their figure and well-being with the benefits a great keto diet can provide.
Speaking of benefits: in this link, you'll discover eight scientifically-tested ones provided by the keto diet.