Sunday, 29 March 2020

UNEXPLORED BEAUTY OF PAKISTAN / SWAIK LAKE


ملکی لاک ڈاون کے پیش نظر آئیں آپ کو گھر میں بیٹھے ہوئے ہی ملک پاکستان کے ایک حسین اور فرحت بخش خطے کی سیر کرواتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ قابل دید مقامات صرف شمال کی جانب ہیں
پاکستان میں خوبصورت قدرتی مقامات کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک کئی ایسے مقامات ہیں جو نظروں میں نہیں آسکے جس کی وجہ سے انہیں باقاعدہ سیاحتی مقام قرار نہیں دیا جاسکا ہے۔
چاہے سندھ کے صحرا ہوں، بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیاں ہوں، یا پنجاب کے لہلہاتے کھیت، سب ہی کچھ نہایت حسین اور قدرت کی خوبصورت صناعی کا عکاس ہے، اور خیبر پختونخواہ کے علاقے تو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور منفرد محل وقع کی وجہ سے مشہور ہیں۔

کھنڈوعہ جھیل کلر کہار سے 10 کلومیٹر اور چکوال موٹروے سے جنوب مغرب کی 
طرف30 کلومیٹر کی مسافت پر جلوہ افروز ہے اور ہم  موٹروے سے ہوتے ہوئے چکوال پہنچے چونکہ چواہ سیدان شاہ روڈ کے ذریعہ سویک جھیل کی طرف ہماری منزل تھی. تقریبا آدھے گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم اس راستے پر تھے جو سویک جھیل کی طرف جاتا تھا
جہاں ایک طرف کلر کہار کی خوبصورت جھیل  ہے دوسری طرف ایک ندی کی ابتداء والی جگہ جہاں بہت صاف و شفاف پانی ہےنڑمی ڈھن (جھیل)اور ایک طرف ایک 


اس جھیل کو پاکستانی SSG کمانڈوز نے دریافت کیا
خوشنمااورخوبصورت باغ جو ناڑوا پر واقع ہے جہاں ہندووں کے بہت آثار موجود ہیں اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہا ہے انتہائی جاذب نظر علاقہ ہے لیکن نڑمی جھیل(مقامی زبان میں ڈھن) کی طرف سڑک نہ ہونے سے یہ خوبصورت علاقہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔بابا فرید کا چشمہ اور غار خاص زیارت کی جگہ ہے جہاں لوگ بڑی عقیدت سے آتے ہیں۔ ناڑوا جو اصل میں نہر رواں تھا اس علاقے کے لیے پانی کی خاص نعمت ہے جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک اس گاؤں کی ضروریات پوری کرتا تھا

سویک جھیل کی ہائک اسی طرح کی ہے جس طرح نیلا واہ جھیل اگرچہ مشکل  تھوڑی زیادہ ہے. پگڈنڈی تقریبا 10 سے 15 منٹ تک وسیع ہے جس کے بعد اس کو تنگ کر دیا جاتا ہے اور اس جھیل کی طرف اشارہ ہوتا ہے جسے جھیل کا پتہ چلتا ہے. اس راستے پر 30 منٹ چلتے ہیں اور ہم  بیس پر نیچے تھے  اور جھیل بالکل سامنے تھی. انتہائی پر کشش اور ناقابل فراموش... قدرت کا شاہکار خوبصورتی کو الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے اسلام آباد سے چکوال کلرکہار کا فاصلہ تقریباً  ڈیڑھ سو کلو میٹر ہے۔جو کہ بذریعہ موٹروے بہت ہی آسانی سے ڈیڑھ سے دو گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔کلرکہار سے دس کلومیٹر کی مُسافت پر قدرت کا یہ شاہکار جسے پاکستان کی ایس۔ایس۔جی کمانڈو فورس نے دریافت کیا، انھوں نے اسکو سوایک(swaik) جھیل کا نام دِیا، پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اسکو ،"نَرومی ڈھن"  یا  "کھنڈوعہ" جھیل کہا جاتا ہے۔
اس سے بہت قریبی مماثلت رکھنے والاایک شہر بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش کا ایک ضلع کھنڈو جس کے معنی لب کٹا یا ایسا شخص جس کا اوپر والا ہونٹ دو حصوں میں تقسیم ہو

 یہاں پر ہندو مت اور جین مذہبکے ماننے والوں کے بڑے مندر ہیں قیام پاکستان سے پہلے اس گاؤں میں بھی بہت ہندو آباد تھے شاید اسی نسبت سے اس کا نام کھنڈوا سے کھنڈوعہ ہو گیا۔ سکھوں والی پہاڑی اور اکثر ہندووں کے آثار آج تک موجود ہیں جو اس خیال کو تقویت دیتے ہیں


 یہ گرمی کے ستاۓ لوگوں کے لۓ ایک  بہترین تفریح گاہ ہے ۔ بلکل صاف شفاف پانی کی یہ قدرتی جھیل اپنے اندر بے پناہ حُسن  و جاذبیت سموۓ ہؤے ہے۔ قدرت کا یہ بے مثال تحفہ بہت عرصے تک لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہنے کے بعد آخر کچھ نگاہوں میں آگیا ۔

پارکنگ تک اپنی گاڑی پر سفر کِیا جا سکتا ہے۔ اُس کے بعد جِیپ پر یا پیدل ٹریکنگ کرتے ہؤے قدرت کے بہترین مناظر سے لُطف اندُوز ہوتے ہوے تقریباً تیس منٹ میں جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر پُہنچتے ہی خُدا کی تعریف یاد آتی ہے ۔ یہ جھیل بے شک قدرتی حُسن سے مالامال ہے لیکن دوسری طرف وہاں جانے والے سیاحوں نے اسکی خوبصورتی کے چاند کو گرہن لگانے کا بھی پورا پورا بندوبست کر کے رکھا ہے۔

 لائف جیکٹ لینے کے بعد کچھ لوگ تو آبی مخلوق بن گئے اور کچھ منچلےجھیل کے اِردگِرد موجود  خوبصورت چٹانوں سے فائدہ اُٹھاتے ہئوے کلفّ ڈایونگ (cliff diving) سے لطف اندوز ہوتے رہے تو دوسری جانب جگہ جگہ لوگ اپنے لئے باربیکیو تیار کرتے ہوے لوگ اس زبردست جگہ کی خوبصورتی سے مخظوظ ہو تے ہیں
اپنا اور اپنے اہل خانہ کا بہت سارا خیال رکھیں
دعاؤں میں یاد رکھیے گا

#isolation_is_solution

9 comments: