Thursday 27 February 2020

Novel CORONA VIRUS / ISLAMIC POINT / symtoms / precautions / history / threat / countries predating with A BRIEF OVERVIEW


INTRODUCTION

Commonly called CoV. IT is a contagious disease. It typically affects the respiratory tract of mammals including humans. CoV causes illness ranging from common cold to severe disease such as SARS-CoV & MERS-CoV. CoV is a new strain that has not previously identified in humans before. Some scientists are saying it a biological war against china. Because china is well established & developed country & surely there are many powers who want to demoralize the values of china…..although china is unable to discover its medicine yet…
CHEMICAL COMPSITION:
                            CoV family is called as CORONOVIRIDAE is comprised of 2 subfamilies.
·       One family is coronovirinae contains a substantial number of pathogens of mammals & birds that cause variety of diseases like pneumonia & hepatitis etc.
·       Second subfamily is TOROVIRINAE .that contains pathogens of both terrestrial & aquatic animals 
                Coronovirus are subclinical they have been described in swine cattle horses camels cats dogs etc .CoV are zoonotic means that can  be transmitted from animals to people.
MERS-CoV is a single stranded RNA virus. It can be caused by closed contact with the infected person. MERS is called Middle East respiratory syndrome
SARS-CoV can cause severe illness with marked pain, headache,& fever followed by 2 to 14 days by mainly cough ,dysnpea,& pneumonia etc.SARS is called severe acute respiratory syndrome
HISTORY
 First case of corona virus has been identified in late 2019 December in central china WUHAN city. It is rapidly increasing & spreading to others countries &killing hundreds of people.
                  Up to now there are total 156930 cases while 5839 patients have been died & 75937 patients have been recovered There are 75154 active cases out of which 92%  are in mild condition & 8%    in severe condition.
Besides china CoV is also predating in many countries including Pakistan, USA, UK, INDIA, BANGLADESH etc…
Recently USA has invested 1 billion dollars for treatment.
In PAKISTAN there are 30 patients who have been affected with CoV.
Since this virus popped up officials could only say that it likely hopped from an animal. In new study researchers found the main cause in addition to discussed earlier in BATS
SYMPTOMS:
CoV symptoms may contain
*      Runny Nose
*      Headache
*      Cough
*      Sore throat
*      Fever
*      General feeling of being unwell
*      Pneumonia
*      Bronchitis
TRANSMISSION:
CoV can be transmitted by
*      The air by coughing & sneezing
*      Close personal contact such as touching  & shaking hands
*      Rarely facial contamination

Young children & adult old aged people are more likely to get CoV virus as they have weak immune system
PRECAUTIONS:
  Some precautionary measure can be adopted to get secured of it
*      Wash your hands with soap at least for 20 secs
*      Avoid touching your eyes nose with unwashed hands
*      Avoid close contact with infected person
*      Stay home
*      Avoid gatherings
*      Cover the mouth while sneezing & coughing
*      Clean the objects & surfaces & disinfect them

These measures are also for the victims.
TREATMENT:
           However its permanent treatment has not been discovered yet but china has proclaimed to cure its first patient. Proper vaccination are under research but some homeopathic medicines are being proved beneficial.
Virus neutralizing antibodies have been detected in sera of sheep goats & rabbits.
 

But one should also

*      Take pain & fever medications
*      Do not give aspirin to children
*      Take a hot bath
*      Drink plenty of liquids
*      Stay home & rest
*      Use mask.
Consult your family doctors
THREAT
It’s not more threatful if you are younger than 50’s  and if you are living in Asia then the chances likely to get corona virus also decreases more .
But unfortunately if you get corona virus then the chances of recovery are more than to get died with it. But precautions are better…
ISLAMIC POINT OF VIEW
Being a true Muslim besides all scientific point of views’ we should also seek help from ALLAH SUBHAN WATTALLA & especially through QURAN.For this ALLAH RAB UL IZZAT has already gifted us with DUA and that’s it
MAY ALLAH PROTECT US
اپنا بہت سارا خیال رکھیں اور دعاؤں میں یاد رکھیے گا

شکریہ

Monday 24 February 2020

DERAWAR FORT BWP /reality/history/architecture/geography


شوق سفر ہمیشہ سے ہی طبعیت پے مسلط رہا. البتہ آج آپ کو تاریخ کی سیر کرواتے چلتے ہیں
تحریر اگرچہ طویل ہے مگر امید ہے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا....
برصغیر میں وہ سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنا شجرہ نسب عرب کے عباسی خلفا سے چلنے کے دعویدار ہیں۔
بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔ ان کی تعمیرات میں کئی آج بھی بہاولپور شہر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے اُن اوراق کی مانند ہیں جن سے کئی کہانیاں اور یادیں عبارت ہیں۔

ایسا ہی ایک ورق پلٹیں تو آپ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں ایک چوکونیاں قلعہ ڈیراور پہنچتے ہیں۔
 مجھے بھی اپنے کالج کے ٹوور کے ساتھ یہاں جانے کا اتفاق ہوا. سڑک پکی مگر تنگ ہے ،اس لیے مسافت لگ بھگ دو گھنٹے کی ہے۔موسم سرما میں اگر یہ سفر ہو تو فرحت بخش ہے...

عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی، جو اب اس قلعے کے نگہبان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام قلعہ ڈیراور ہے اور اپنی کتاب میں انھوں نے یہی نام استعمال کیا ہے۔

آپ سفر صبح سویرے شروع کریں. اونچی دیواریں اور ان میں نصب ٹھوس لوہے سے بنا اس قدر اونچا اور چوڑا مرکزی دروازہ کہ ہاتھی اس میں سے با آسانی گزر جائے۔ ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔
اس کے بالکل سامنے دلی کی مسجد کی طرز پر بنی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہےتاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ ڈیراور میں بھی یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو پیچھے لے جائے اور واپس لوٹنے میں آپ کا پورا دن گزر سکتا ہے۔

قلعے کی جانب بڑھیں تو مسجد کے عقب میں بنے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے آپ پیچ کھاتی اس کشادہ گزرگاہ پر پہنچتے ہیں جو آپ کو قلعے کے اندر لے کر جاتی ہے۔ اسے کبھی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہو گا۔
قلعہ ڈیراور آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کی آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم واب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

قمرالزماں عباسی کے مطابق قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک  دریا گزرتا تھا جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھ
مرکزی دراوزے سے قلعے کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں ایک توپ کھڑی ہے۔ سامنے جو عمارت نظر آتی ہے وہ غالباً بارہ دری تھی جو محل کے بیرونی حصے میں واقع تھی۔

اس کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دری میں کھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کی ٹائیلوں اور پتھر پر کشیدہ کاری کے ذریعے آرائش کی گئی تھی۔ انتہائی بوسیدگی کی حالت میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔

اندر موجود تعمیرات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہ قلعہ کی باہر سے ظاہر شان و شوکت کے 
بالکل مختلف ہے۔





۔ مختلف علاقوں سے آئے سیاح ان بوسیدہ در و دیوار کے ساتھ وقت بیتاتے ہیں. مغربی سمت ایک چبوترے سے سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں۔ اس کے مقام کے علاوہ بھی قلعے کی عمارتوں میں ایسے کئی مقامات موجود تھے جہاں زیرِ زمین سرنگوں کو راستے جاتے تھے۔ اب وہ مٹی سے بند ہو چکے ہیں شاید آپ نہ دیکھ پائیں۔
کہا جاتا ہے کہ قلعے میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال موجود تھا۔ اس میں ریل کی پٹڑیاں کچھ عرصہ پہلے تک دیکھی بھی جا سکتی تھیں۔ خیال ہے کہ ان کے ذریعے قلعے کے اندر اور باہر خفیہ رہ کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی سرنگ غالباً دلی تک بھی جاتی..


ارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہےاس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھ
درآور کے چالیس برج چولستان صحرا میں کئی میل دور تک نظر آتے ہیں ۔دیواروں کا قطر 1500 میٹر ہے اور ان کی اونچائی تیس میٹر ہے ۔اس جگہ پر پہلا قلعہ ہندو راچپوت رائے جیجا بھاٹی آف جیصلمیر نے بنوایا تھا۔یہ جیصلمیر کے شاہی خاندان کے ہاتھوں میں رہا 1733تک ۔1733 میں بہاولپور کے نوابوں نے قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کروایا.





اور یہ تحریر ان لوگوں کو باور کرواۓ گی کہ پاکستان میں قابل دید مقامات صرف شمال کی جانب واقع ہیں... جو صرف شوگران اور مری کی یخبستگی سے آشنا ہیں.جو مشرقی پنجاب کی سرما میں چلنے والی صحت افزا ہواؤں سے واقف نہیں



Sunday 23 February 2020

NOOR MAHAL BAHAWALPUR ,History / facts

سابقہ ریاست بہاولپور کے نوابوں کے پاس بہت دولت تھی۔ انھوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے دل کھول کر اسے استعمال کیا اور ساتھ ساتھ اپنے شایانِ شان محلات بھی تعمیر کروائے۔

ریاست تو نہیں رہی مگر اس کی کہانی سنانے کے لیے نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں ضرور موجود ہیں۔ یہ ایک شاندار کہانی ہے اور سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب آپ بہاولپور کا رُخ کریں تو آپ کو صرف ’دیکھنے والی آنکھ‘ چاہیے اور کچھ نہیں۔

وکٹوریا ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ سٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتوں سے ہوتے ہوئے اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دور میں بننے والی سہولیات خطے کے اعتبار سے اپنے وقت میں کافی جدید تھیں۔

اور پھر نور محل وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑی یہ عمارت مغربی اوراسلامی طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ اس کی آب و تاب اور طمطراق دور ہی سے آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہےاپنے پہلوؤں میں نور محل سبزے کی چادر بچھائے ہے۔ اس کے عین سامنے دائرے کی شکل میں بنے لان میں بیٹھے ہلکے سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کو دیکھتے آپ اس کے سحر میں گرفتار ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
ریباًڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل ان بہت سے محلات میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران بہاولپور میں تعمیر ہوئے۔ باقی محلات شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں مگر نور محل میں کچھ الگ ضرور ہے. دال ماش اورچاول کی آمیزش والے گارے سے بنے اس نور محل میں آنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بحالی بہاولپور صوبہ کی باتیں سن کر امیر ریاست کی پرشکوہ نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔


نور محل نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سنہ 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا تھا جو تین سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔

تاہم ان کی بیگم نے اس محل میں صرف  ایک رات قیام کیا کیونکہ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ محل کے قرب میں ہی ایک قبرستان موجود تھا۔ نور محل کے حوالے سے یہی کہانی آپ کو انٹرنیٹ پر بھی بیشمار جگہ ملے گی۔ مگر کیا یہ حقیقیت ہے؟
سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے نواسے صاحبزادہ قمرالزمان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوائے سنِ تعمیر کے، اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں۔

’لوگ ڈائیلاگ بازی کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کہانیاں بنا لیتے ہیں کہ جی بیگم کا نام نور جہاں تھا۔ جب نہیں پتا تو نہ بولو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہیں‘ اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منصوب ہے۔ نور محل کی تعمیر کو کسی بیگم سے منصوب کرنا غلط ہے۔
 نواب صاحب کی دیوھڑی یعنی نواب صاحب کی گھر والی کا نام لینےکی ممانعت تھی۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہےحقیقتاً یہ مہمانخانہ تھا۔ ’اس وقت کی بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں ٹھہرے ہیں۔ بعد میں  سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقارعلی ھٹواورمحترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات بھی یہاں ٹھہری ہیں۔ مہمان خانے میں اس وقت کے شاہِ ایران کے علاوہ راج برطانیہ کے وائسرائے، گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی ٹھہر چکے ہیں
۔‘محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں روشنی کے لیے تین بڑے فانوس تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا جاتا نورمحل کے گائیڈ محمد صدیق نے بتایاکہ یہاں نصب فانوسوں میں لگے  ہیرے چوری کرنے کی کوشش کے دوران یہ فانوس گرا کر تباہ کر دیے گئے۔ان کے گرائے جانے سے جو نشان پڑے وہ اب بھی  موجود ہیں۔

محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشوں کی دیوار نظر آتی ہے۔

اس میں شیشوں کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی رہتی ہے۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں ایک  سرنگوں کاایک جال بچھایا گیا ہے جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گذرتی جو پانی کی ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں البتہ ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا

 موجودہ نور محل کی عمارت میں ایک پیانو بھی رکھا گیا ہے۔ اس کے بارےمیں
بتایا گیا ہے کہ یہ نواب صادق محمد خان چہارم جن کو صبحِ صادق کا لقب بھی دیا گیا تھا انھوں نے جرمنی سے سنہ 1875 میں درآمد کیا اور اپنی بیگم کو تحفے میں دیا۔ یہ پیانو درحقیقت ’نواب صادق محمد خان پنجم کا تھا۔ وہ پیانو بجانا بھی جانتےتھے

نواب صادق محمد خان پنجم سنہ 1935 میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے جو گاڑی استعمال کی وہ بھی آپ کو محل کے باہر کھڑی ملے گی محل کا فرنیچر برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے درآمد کیا گیا تھا۔ یہ فرنیچر آپ کو مرکزی ہال میں بھی ملے گا اور بیڈ روم میں بھی۔ آج بھی اس کی چمک دمک قائم ہے۔

دیواروں پر تصویروں کی مدد سے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور ان کے دور کی تاریخ آویزاں ہے۔ محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں سنوکر کا میز اور ضروری لوازمات آج بھی موجود ہیں۔وہ آئینہ بھی ہے جو بیلجیئم سے درآمد کیا
فی الحال یہ محل پاکستان آرمی کے پاس ہے.....


اپنا بہت سارا خیال رکھیں
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
اللہ نگہبان