ریاست تو نہیں رہی مگر اس کی کہانی سنانے کے لیے نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں ضرور موجود ہیں۔ یہ ایک شاندار کہانی ہے اور سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب آپ بہاولپور کا رُخ کریں تو آپ کو صرف ’دیکھنے والی آنکھ‘ چاہیے اور کچھ نہیں۔
وکٹوریا ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ سٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتوں سے ہوتے ہوئے اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دور میں بننے والی سہولیات خطے کے اعتبار سے اپنے وقت میں کافی جدید تھیں۔
اور پھر نور محل وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑی یہ عمارت مغربی اوراسلامی طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ اس کی آب و تاب اور طمطراق دور ہی سے آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہےاپنے پہلوؤں میں نور محل سبزے کی چادر بچھائے ہے۔ اس کے عین سامنے دائرے کی شکل میں بنے لان میں بیٹھے ہلکے سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کو دیکھتے آپ اس کے سحر میں گرفتار ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
ریباًڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل ان بہت سے محلات میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران بہاولپور میں تعمیر ہوئے۔ باقی محلات شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں مگر نور محل میں کچھ الگ ضرور ہے. دال ماش اورچاول کی آمیزش والے گارے سے بنے اس نور محل میں آنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بحالی بہاولپور صوبہ کی باتیں سن کر امیر ریاست کی پرشکوہ نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔
نور محل نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سنہ 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا تھا جو تین سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔
تاہم ان کی بیگم نے اس محل میں صرف ایک رات قیام کیا کیونکہ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ محل کے قرب میں ہی ایک قبرستان موجود تھا۔ نور محل کے حوالے سے یہی کہانی آپ کو انٹرنیٹ پر بھی بیشمار جگہ ملے گی۔ مگر کیا یہ حقیقیت ہے؟
سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے نواسے صاحبزادہ قمرالزمان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوائے سنِ تعمیر کے، اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں۔
’لوگ ڈائیلاگ بازی کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کہانیاں بنا لیتے ہیں کہ جی بیگم کا نام نور جہاں تھا۔ جب نہیں پتا تو نہ بولو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہیں‘ اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منصوب ہے۔ نور محل کی تعمیر کو کسی بیگم سے منصوب کرنا غلط ہے۔
نواب صاحب کی دیوھڑی یعنی نواب صاحب کی گھر والی کا نام لینےکی ممانعت تھی۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہےحقیقتاً یہ مہمانخانہ تھا۔ ’اس وقت کی بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں ٹھہرے ہیں۔ بعد میں سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقارعلی ھٹواورمحترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات بھی یہاں ٹھہری ہیں۔ مہمان خانے میں اس وقت کے شاہِ ایران کے علاوہ راج برطانیہ کے وائسرائے، گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی ٹھہر چکے ہیں
۔‘محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں روشنی کے لیے تین بڑے فانوس تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا جاتا نورمحل کے گائیڈ محمد صدیق نے بتایاکہ یہاں نصب فانوسوں میں لگے ہیرے چوری کرنے کی کوشش کے دوران یہ فانوس گرا کر تباہ کر دیے گئے۔ان کے گرائے جانے سے جو نشان پڑے وہ اب بھی موجود ہیں۔
محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشوں کی دیوار نظر آتی ہے۔
اس میں شیشوں کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی رہتی ہے۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں ایک سرنگوں کاایک جال بچھایا گیا ہے جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گذرتی جو پانی کی ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں البتہ ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا
موجودہ نور محل کی عمارت میں ایک پیانو بھی رکھا گیا ہے۔ اس کے بارےمیں
بتایا گیا ہے کہ یہ نواب صادق محمد خان چہارم جن کو صبحِ صادق کا لقب بھی دیا گیا تھا انھوں نے جرمنی سے سنہ 1875 میں درآمد کیا اور اپنی بیگم کو تحفے میں دیا۔ یہ پیانو درحقیقت ’نواب صادق محمد خان پنجم کا تھا۔ وہ پیانو بجانا بھی جانتےتھے
نواب صادق محمد خان پنجم سنہ 1935 میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے جو گاڑی استعمال کی وہ بھی آپ کو محل کے باہر کھڑی ملے گی محل کا فرنیچر برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے درآمد کیا گیا تھا۔ یہ فرنیچر آپ کو مرکزی ہال میں بھی ملے گا اور بیڈ روم میں بھی۔ آج بھی اس کی چمک دمک قائم ہے۔
دیواروں پر تصویروں کی مدد سے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور ان کے دور کی تاریخ آویزاں ہے۔ محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں سنوکر کا میز اور ضروری لوازمات آج بھی موجود ہیں۔وہ آئینہ بھی ہے جو بیلجیئم سے درآمد کیا
فی الحال یہ محل پاکستان آرمی کے پاس ہے.....
سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے نواسے صاحبزادہ قمرالزمان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوائے سنِ تعمیر کے، اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں۔
’لوگ ڈائیلاگ بازی کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کہانیاں بنا لیتے ہیں کہ جی بیگم کا نام نور جہاں تھا۔ جب نہیں پتا تو نہ بولو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہیں‘ اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منصوب ہے۔ نور محل کی تعمیر کو کسی بیگم سے منصوب کرنا غلط ہے۔
نواب صاحب کی دیوھڑی یعنی نواب صاحب کی گھر والی کا نام لینےکی ممانعت تھی۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہےحقیقتاً یہ مہمانخانہ تھا۔ ’اس وقت کی بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں ٹھہرے ہیں۔ بعد میں سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقارعلی ھٹواورمحترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات بھی یہاں ٹھہری ہیں۔ مہمان خانے میں اس وقت کے شاہِ ایران کے علاوہ راج برطانیہ کے وائسرائے، گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی ٹھہر چکے ہیں
۔‘محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں روشنی کے لیے تین بڑے فانوس تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا جاتا نورمحل کے گائیڈ محمد صدیق نے بتایاکہ یہاں نصب فانوسوں میں لگے ہیرے چوری کرنے کی کوشش کے دوران یہ فانوس گرا کر تباہ کر دیے گئے۔ان کے گرائے جانے سے جو نشان پڑے وہ اب بھی موجود ہیں۔
محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشوں کی دیوار نظر آتی ہے۔
اس میں شیشوں کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی رہتی ہے۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں ایک سرنگوں کاایک جال بچھایا گیا ہے جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گذرتی جو پانی کی ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں البتہ ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا
موجودہ نور محل کی عمارت میں ایک پیانو بھی رکھا گیا ہے۔ اس کے بارےمیں
بتایا گیا ہے کہ یہ نواب صادق محمد خان چہارم جن کو صبحِ صادق کا لقب بھی دیا گیا تھا انھوں نے جرمنی سے سنہ 1875 میں درآمد کیا اور اپنی بیگم کو تحفے میں دیا۔ یہ پیانو درحقیقت ’نواب صادق محمد خان پنجم کا تھا۔ وہ پیانو بجانا بھی جانتےتھے
دیواروں پر تصویروں کی مدد سے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور ان کے دور کی تاریخ آویزاں ہے۔ محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں سنوکر کا میز اور ضروری لوازمات آج بھی موجود ہیں۔وہ آئینہ بھی ہے جو بیلجیئم سے درآمد کیا
فی الحال یہ محل پاکستان آرمی کے پاس ہے.....
اپنا بہت سارا خیال رکھیں
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
اللہ نگہبان
Husnain bhai ap ne to kamaal kr diya keep it up bro
ReplyDeleteShukria bhi
DeleteGood
ReplyDeletetysm buddy
DeleteMashallah jigar ahad hn
ReplyDeleteJazak ALLAH
DeleteName ka pta aa
Allah Pak ap ko khush rakhy
ReplyDeletechoty veer
ameen thanks fo your affection
Delete