شوق سفر ہمیشہ سے ہی طبعیت پے مسلط رہا. البتہ آج آپ کو تاریخ کی سیر کرواتے چلتے ہیں
تحریر اگرچہ طویل ہے مگر امید ہے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا....
برصغیر میں وہ سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنا شجرہ نسب عرب کے عباسی خلفا سے چلنے کے دعویدار ہیں۔
بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔ ان کی تعمیرات میں کئی آج بھی بہاولپور شہر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے اُن اوراق کی مانند ہیں جن سے کئی کہانیاں اور یادیں عبارت ہیں۔
ایسا ہی ایک ورق پلٹیں تو آپ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں ایک چوکونیاں قلعہ ڈیراور پہنچتے ہیں۔
مجھے بھی اپنے کالج کے ٹوور کے ساتھ یہاں جانے کا اتفاق ہوا. سڑک پکی مگر تنگ ہے ،اس لیے مسافت لگ بھگ دو گھنٹے کی ہے۔موسم سرما میں اگر یہ سفر ہو تو فرحت بخش ہے...
عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی، جو اب اس قلعے کے نگہبان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام قلعہ ڈیراور ہے اور اپنی کتاب میں انھوں نے یہی نام استعمال کیا ہے۔
آپ سفر صبح سویرے شروع کریں. اونچی دیواریں اور ان میں نصب ٹھوس لوہے سے بنا اس قدر اونچا اور چوڑا مرکزی دروازہ کہ ہاتھی اس میں سے با آسانی گزر جائے۔ ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔
ارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہےاس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھ
درآور کے چالیس برج چولستان صحرا میں کئی میل دور تک نظر آتے ہیں ۔دیواروں کا قطر 1500 میٹر ہے اور ان کی اونچائی تیس میٹر ہے ۔اس جگہ پر پہلا قلعہ ہندو راچپوت رائے جیجا بھاٹی آف جیصلمیر نے بنوایا تھا۔یہ جیصلمیر کے شاہی خاندان کے ہاتھوں میں رہا 1733تک ۔1733 میں بہاولپور کے نوابوں نے قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کروایا.
سننے میں آیا ہے کہ اسی قلعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار اصحابہ اکرام رضی اللہ عنہ اجمعین کے مزارات بھی ہیں ۔بہت کوشش کے باوجود بھی ان کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئی ہے۔
اس کے بالکل سامنے دلی کی مسجد کی طرز پر بنی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہےتاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ ڈیراور میں بھی یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو پیچھے لے جائے اور واپس لوٹنے میں آپ کا پورا دن گزر سکتا ہے۔
قلعے کی جانب بڑھیں تو مسجد کے عقب میں بنے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے آپ پیچ کھاتی اس کشادہ گزرگاہ پر پہنچتے ہیں جو آپ کو قلعے کے اندر لے کر جاتی ہے۔ اسے کبھی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہو گا۔
قلعہ ڈیراور آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کی آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم واب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
قمرالزماں عباسی کے مطابق قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک دریا گزرتا تھا جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھ
مرکزی دراوزے سے قلعے کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں ایک توپ کھڑی ہے۔ سامنے جو عمارت نظر آتی ہے وہ غالباً بارہ دری تھی جو محل کے بیرونی حصے میں واقع تھی۔
اس کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دری میں کھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کی ٹائیلوں اور پتھر پر کشیدہ کاری کے ذریعے آرائش کی گئی تھی۔ انتہائی بوسیدگی کی حالت میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔
اندر موجود تعمیرات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہ قلعہ کی باہر سے ظاہر شان و شوکت کے
بالکل مختلف ہے۔
۔ مختلف علاقوں سے آئے سیاح ان بوسیدہ در و دیوار کے ساتھ وقت بیتاتے ہیں. مغربی سمت ایک چبوترے سے سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں۔ اس کے مقام کے علاوہ بھی قلعے کی عمارتوں میں ایسے کئی مقامات موجود تھے جہاں زیرِ زمین سرنگوں کو راستے جاتے تھے۔ اب وہ مٹی سے بند ہو چکے ہیں شاید آپ نہ دیکھ پائیں۔
کہا جاتا ہے کہ قلعے میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال موجود تھا۔ اس میں ریل کی پٹڑیاں کچھ عرصہ پہلے تک دیکھی بھی جا سکتی تھیں۔ خیال ہے کہ ان کے ذریعے قلعے کے اندر اور باہر خفیہ رہ کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی سرنگ غالباً دلی تک بھی جاتی..
ارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہےاس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھ
درآور کے چالیس برج چولستان صحرا میں کئی میل دور تک نظر آتے ہیں ۔دیواروں کا قطر 1500 میٹر ہے اور ان کی اونچائی تیس میٹر ہے ۔اس جگہ پر پہلا قلعہ ہندو راچپوت رائے جیجا بھاٹی آف جیصلمیر نے بنوایا تھا۔یہ جیصلمیر کے شاہی خاندان کے ہاتھوں میں رہا 1733تک ۔1733 میں بہاولپور کے نوابوں نے قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کروایا.
اور یہ تحریر ان لوگوں کو باور کرواۓ گی کہ پاکستان میں قابل دید مقامات صرف شمال کی جانب واقع ہیں... جو صرف شوگران اور مری کی یخبستگی سے آشنا ہیں.جو مشرقی پنجاب کی سرما میں چلنے والی صحت افزا ہواؤں سے واقف نہیں
💗Good job
ReplyDeleteTysm buddy
ReplyDeleteGood job bro
ReplyDeletetysm
DeleteMashallah jigarr
ReplyDeleteThanks
DeleteOkay...
ReplyDeleteWhat I'm going to tell you may sound pretty weird, and maybe even kind of "strange"
HOW would you like it if you could just hit "PLAY" to LISTEN to a short, "miracle tone"...
And INSTANTLY attract MORE MONEY to your life???
What I'm talking about is hundreds... even thousands of dollars!!!
Sound too EASY??? Think this couldn't possibly be for REAL??
Well, I'll be the one to tell you the news.
Many times the greatest blessings in life are the SIMPLEST!!!
Honestly, I'm going to PROVE it to you by allowing you to PLAY a REAL "miracle wealth building tone" I've synthesized...
And do it FREE (no strings attached).
You just hit "PLAY" and watch how money starts piling up around you... it starts right away...
CLICK here now to PLAY the marvelous "Miracle Wealth Building Tone" - as my gift to you!!!