Friday, 10 April 2020

khewra salt mine/untold reality/beauty of pakistan


ویسے تو پاکستان قدرت کی بے شمارنعمتوں سے مالامال ہے۔چاہے سندھ کے صحرا ہوں، بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیاں ہوں، یا پنجاب کے لہلہاتے کھیت، سب ہی کچھ نہایت حسین اور قدرت کی خوبصورت صناعی کا عکاس ہے، اور خیبر پختونخواہ کے علاقے تو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور منفرد محل وقع کی وجہ سے مشہور ہیں۔ لیکن کھیوڑہ میں موجود نمک کی کان دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور تاریخی مناظر پیش کرنے والی نمک کی کان ہے۔کھیوڑہ سالٹ مائن ضلع جہلم، صوبہ پنجاب کی تحصیل پنڈ دادنخان میں واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 140 کلومیٹر جبکہ لاہور سے تقریباً 250 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ تاریخی پس منظر کے مطابق کھیوڑہ میں نمک کی دریافت 320 قبلِ مسیح میں اُس وقت ہوئی، جب دریائے جہلم کے کنارے سکندراعظم اور راجہ پورس کے مابین جنگ لڑی گ


سکندراعظم کے فوجیوں کے گھوڑے اس علاقے میں چرنے کے دوران پتھروں کو چاٹتے پائے گئے جس سے یہاں نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اُس وقت سے یہاں نمک نکالنے کا کام جاری ہے۔ یہ دنیا میں نمک کا اہم ترین ذخیرہ ہے۔ کوہستان نمک کا سلسلہ دریائے جہلم کے قریب بیگنوالہ سے شروع ہوکر دریائے سندھ کالا باغ میں ختم ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 300 کلومیٹر، چوڑائی 4 تا 30 کلومیٹر، اور اونچائی 2200 فٹ تا 4990 فٹ ہے۔


مارچ 1849 میں برطانیہ نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو یہ کان بھی ان کے تصرف میں چلی گئی۔ 1829 سے 1862 تک برطانوی تسلط کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ 1872 میں ایک نیا نظام رائج کیا گیا جس سے کام کا بوجح بہت بڑھ گیا۔ کان کنوں کو روزانہ کان میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس وقت نکلنے دیا جاتا تھا جب وہ اپنی روزانہ کی مقررہ مقدار میں نمک کھود لیتے تھے۔ مرد اور عورتیں بلکہ بچے بھی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان حالات میں بعض بچے کان ہی میں پیدا ہوئے۔ 1872 سے 1876 میں کان کنوں نے کئی مواقع پر اس سلوک کے خلاف کام روک دیا۔ کان کے چیف انجینئیر Warth نے دہلی سے Wright صاحب کی مدد سے فوج طلب کر لی اور بارہ کان کنوں کو کان کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ ان میں سے دس کان کنوں کے نام یہ ہیں
عبد اللہ
محمد سردار
محمد حسن
نواب
اللہ بخش
خدا بخش
محمد عبد اللہ
جاویہ
پیرا
محمد واحد

 کان میں پانی کی نکاسی کے لیے پرنالوں کا ایک نظام بھی موجود ہے۔
 پہاڑ سے رسنے والے پانی اور بارش کے پانے کے جمع ہونے سے نمکین پانی کے بعض تالاب بھی ہیں جن پر نمک ہی کے بنے ہوئے پل بنائے گئے ہیں۔ ان تالابوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ قریباً 40 فٹ گہرے ہیں۔ مگر اس میں کوئی ڈوبتا نہیں کیونکہ یہ نمک کا بھاری پانی ہے اور اگر آپ اس میں گر جائیں تو آپ ڈوبیں گے نہیں مگر آپ کے جسم کا سارا پانی نکل جائے گا dehydration کی وجہ سے اور آپ کو فوراً ڈرپ لگوانی پڑے گی...


کان کے مختلف حصوں میں بعض عمارات بھی بنائی گئی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور نمک کی اینٹوں سے بنائی گئی ایک مسجد ہے جس میں بجلی کے قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ جو اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے۔


کھیوڑہ کی نمک کی کان کا موجودہ نظام چوہدری نظام علی خان نامی انجینئیر کا بنایا ہوا ہے۔ یہ کان زیر زمین 110 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں 19 منزلیں بنائی گئی ہیں جن میں سے 11 منزلیں زیر زمین ہیں۔ نمک نکالتے وقت صرف 50 فی صد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ باقی 50 فی صد بطور ستون اور دیوار کان میں باقی رکھا جاتا ہے۔ کان دھانے سے 750 میٹر دور تک پہاڑ میں چلی گئی ہے اور اس کے تمام حصوں کی مجموعی لمبائی 40 کیلومیٹر ہے۔ اس کان میں سے سالانہ 325000 ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے۔جس میں سے 50 فیصد برآمد کیا جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑا خریدار نمک حرام انڈیا ہے۔باقی  ساتھ ہی موجود  سوڈا آس فیکٹری کو دیا جاتا ہے اور ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔


کھیوڑہ کی کان میں بیس بستروں والا ایک ہسپتال بنانے کا منصوبہ بھی ہے، جہاں دمے کے مریض آسکیں گے اور نمک زدہ ہوا میں سانس لے سکیں گے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا دمے کے مریض کیلیے انتہائی صحت بخش ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور عمدہ بات یہ ہے کہ کان کے قریب نمک کی چٹانوں سے بنی ہوئی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جو کان کی سیر کو آنے والے لوگوں میں بہت مقبول ہے۔ کان کے مزدور تو شاذ و نادر ہی وہاں کام روک کر جاپاتے ہیں۔
 کھیوڑہ کان کا نمک دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ تخمینے کے مطابق یہاں نمک کے ذخائر 8 کروڑ ٹن سے لے کر 60 کروڑ ٹن تک ہوسکتے ہیں۔ کان کے چیف مائننگ آفیسر کے مطابق برطانوی دور سے اب تک کان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی ہونے کے امکانات ہیں

۔ ان کے خیال میں کان میں کسی قسم کی سرمایہ کاری ایک فضول حرکت ہوگی کیونکہ دنیا میں راک سالٹ یا معدنی نمک کی قیمتیں نہایت کم ہوچکی ہیں۔ اس کے برعکس برطانوی دور میں معدنی نمک اس قدر اہم تھا کہ برطانوی راج نے اس پر قبضہ کرنا ضروری سمجھا۔ ایک معروف انگریز مائننگ انجینئر ڈاکٹر وارتھ نے نمک کے ذخائر تک براہ راست رسائی کیلیے بڑی کان کی کھدائی کروائی جو تاحال فعال ہے۔ سائنسی اصولوں کے مطابق کان سے 50 فیصد نمک نکال کر 50 فیصد بطور ستون چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کان کی مضبوطی کو قائم رکھتا ہے

چیف مائننگ انجینئر کے مطابق ہائی گریڈ یا اعلی معیار کے نمک کی ابھی تک مانگ ہے اور کھیوڑہ سے نکالا جانے والا نمک اسی معیار کے تحت شمار کیا جاتا ہے جس کی خام حالت میں بھی نمک کی مقدار 98 فیصد یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔


کھیوڑہ کو ارضیاتی عجائب گھر بھی قرار دیا جاتا ہے ۔


No comments:

Post a Comment